Error:

ابراہیم غزنوی

ابراہیم غزنوی424ھ/بمطابق1033عیسویٰ میں ہرات میں پیدا ہوے جو کہ موجودہ افغانستان کا اہم شہر ہے۔اس وقت غزنی سلطنت کی قیادت  ابراہیم  کے والد مسعود غزنوی کے ہاتھ میں تھی۔مسعود غزنوی 421ھ تا 432ھ/1030تا 1040ء تک حکمران رہے۔مسعود غزنوی ایک بہادر بیدار مغز حکمران تھے۔وہ اپنے بیٹے ابراہیم کی زندگی کے ابتدائی 8 سال تک زندہ رہے۔یہاں تک کہ 432ھ/بمطابق 1040عیسویٰ میں انہیں قتل کر دیا گیا۔

مسعود کے زمانے میں غزنوی سلطنت سمٹ کر رہ گئی تھی۔ کیوں کہ سلجوقیوں نے طغرل بیگ کی قیادت میں خراسان کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ مسعود کے بعد ان کے بیٹے موود نے434ھ/1042عیسویٰ میں  حکومت سنبھالی۔440ھ/بمطابق1048 عیسویٰ میں موود کے انتقال کے بعد  ان کے بھائی علی  بن مسعود حکمران بنے۔441ھ/بمطابق1049عیسویٰ  میں ان کی معزولی کے بعد عبد الرشید نے اقتدار سنبھالا۔لیکن 443ھ/بمطابق 1052 عیسویٰ میں انہیں بھی قتل کر دیا گیا۔ان کے بعد غزنوی سلطنت کی باگ ڈور ان مسعود کے ایک اور بیٹےفرخ  زاد کے ہاتھوں میں آئی فرخ نے سلطنت کو سنبھالا اور سلجوقیوں کو پسپا کر دیا۔فرخ سیر 451ھ/بمطابق 1059 عیسویٰ میں وفات پا گئے۔ان کی وفات کے بعد ان کے  بھائی  ابراہیم غزنوی نے سلطنتِ غزنویہ کے 12ھویں فرما نوا کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا۔

ابراہیم غزنوی نے جب تخت سنبھالا تو انہوں نے سلجوقیوں سے جنگ و جدل  ختم کرنا چاہا۔ کیونکہ غزنویوں اور سلجوقیوں کے درمیان بلخ اور سیستان  کے علاقوں میں لڑائیاں جاری تھیں۔تا ہم اب دونوں فریقوں کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ اب اس جنگ کا کسی کو فائیدہ نہیں ہو گا ۔مزید پیش رفت ابراہیم غزنوی نے کی ۔انہوں نے  ختلان،چغانیاں  اور قبادیان کے علاقے سلجو قیوں کو پیش کر دیے اور ان سے دوستی کا معاہدہ کیا۔

ابراہیم غزنوی نے سلجوقی سلطان کو قیمتی تحائف بھی بھیجےجب 455ھ/بمطابق 1063عیسویٰ کو سلجوقی سلطان  طغرل بیگ محمد کا انتقال ہوا  اور ان کے  بھتیجے(چغری بیگ کے صاحبزادے) الپ ارسلان کو سلجوقی سلطنت کا فرما نروا تسلیم کر لیا گیا تو ابراہیم غزنوی اور الپ ارسلان کے مابین زیادہ قریبی تعلقات قائم ہو گئے۔ابراہیم غزنوی نے اپنی ایک بیٹی کی شادی الپ ارسلان کے بیٹے  ارسلان شاہ سے کر دی،اور اپنے بیٹے کی شادی  ملک شاہ سلجوقی کی بیٹی سے کر دی۔سلجوقیوں سے  یہ دوستانہ مراسم غزنویوں کے حق میں  خوشحالی لائے۔اب  مغرب کی جانب سے غزنوی سلطنت کی سر حدیں محفوظ ہو گئیں۔

اس کے بعد ابراہیم غزنوی نے  بر صغیر کی طرف توجہ دی۔پہلے تو انہوں نے ایک بڑی فوج بر صغیر روانہ کی اور اس فوج نے بعض ایسے علاقے فتح کیے جو کہ پہلے غزنوی سلطنت نے فتح نہیں کیے تھے۔472ھ/بمطابق 1079 عیسویٰ میں ابراہیم غزنوی خود فوج کی قیا دت کرتے ہوے اس علاقے میں داخل ہوئے جو اب پاکستان میں شامل ہے۔ ابراہیم غزنوی نے "اجودھن" کے قلعے کا محاصرہ کیا  اور اسے فتح کر لیا ۔اس کا موجودہ نام "پاکپتن "ہے۔

اس کے بعد ابراہیم غزنوی نے ایک اور بڑے قلعے روپال پر حملہ کیا۔یہ قلعہ ایک بلند پہاڑ کی چوٹی پر بنا ہوا تھا۔جس کی ایک جانب دریا جبکہ دوسری جانب جنگل تھا، جنگل اس قدر گھنا تھا کہ سورج کی روشنی زمین تک نہیں آتی تھے۔ قلعے کی دوسری جانب فوج کو ٹھہرانے کہ جگہ بلکل بھی نہ تھی۔ یوں ان حالات میں اس قلعے کو فتح کرنا ناممکن نظر آ رہا تھا لیکن ابراہیم غزنوی  نے اس مہم کو ترک نہ کیا  اور تمام مشکلات کے باوجود  طویل محاصرے کے بعد  ابراہیم غزنوی نے یہ قلعہ فتح کر لیا۔

قلعہ روپال کے بعد ابراہیم غزنوی نے ایک اور شہر درہ پر حملہ کیا اس شہر میں ایسے غیر مسلم آ باد تھے جو کہ خراسانی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔یہ بڑی جنگجو قوم تھی۔اس شہر کے آ س پاس بھی بے شمار جنگل تھے۔ شہر میں داخل ہونے کا راستہ بہت دشوار تھا۔ابراہیم غزنوی نے کسی رکاوٹ کی پرواہ نہ کی اور  پیدل فوج کو یہ  حکم جاری کیا کہ وہ درختوں کو کاٹ کر باقی فوج کے لئے راستہ بنائیں اور جب فوج شہر کے پاس پہنچی تو زور دار بارش شروع ہو گئی۔بارش کا یہ سلسلہ تقریباً3ماہ جاری رہا۔جب بارش رُکی تو ابراہیم غزنوی نے اہل شہر کو اسلام لانے کی دعوت دی  یا پھر  غیر مسلم رہ کر جزیہ دینے کی پیش کش کی لیکن اہل شہر والوں نے نفی میں جواب دیا۔ابراہیم غزنوی نے شہر پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا ۔

ابراہیم غزنوی سے پہلے  غزنی اور سلجوقی سرحدوں پر جنگوں کی وجہ سے پنجاب اور سرحد  مین کافی بغاوتیں زور پکڑ رہیں تھیں۔ابراہیم غزنوی کے دور میں ہندوں نے مسلمانوں کو پنجاب سے نکالنے کی کوشش کی۔لیکن وہ ناکام رہے۔ابراہیم غزنوی کی کو ششوں سے  دہلی تک کا علاقہ غزنوی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ان کی سلطنت تو اتنی وسیع تھی جتنی کہ ان کے دادا محمود غزنوی  نے قائم کی تھی لیکن پھر بھی  اس میں مشرقی افغانستان، موجودہ پنجاب اور  دہلی کے علاقے  شامل تھے۔

ابراہیم غزنوی نے غور کے علاقے میں بھی فوج کُشی کی تھی۔ غور کے علاقے میں ایک مفاد پرس انسان  عباس حکمران تھا ۔عباس ایک ظالم اور سفاک قسم کا حکمران تھا۔جب اس کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو غور سے ایک وفد ابراہیم غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور مدد کی درخواست کی،ابراہیم غزنوی نے غور پر حملہ کیا اور جنگ ہوئی جس مین عباس گرفتار ہوا ابراہیم غزنوی اسے غزنی لے آئے یہاں قید میں اس کی موت  ہو گی۔ابراہیم غزنوی چاہتے تو غور کو سلطنت میں شامل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ عباس کے ایک بیٹے محمد کو غور کا حکمران بنایا۔محمد نے نہایت  عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کی۔

ابراہیم غزنوی نے حد متقی،پر ہیز گار اور دین دار انسان تھے۔ابراہیم غزنوی ہر سال رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ  رجب اور شعبان کے روزے بھی رکھا کرتے تھے۔ابراہیم غزنوی ایک اعلیٰ درجے کے خطاط بھی تھے۔مکہ و مدینہ سے انہیں اس قدر محبت تھی کہ وہ ہر سال قرآن مجید کے ایک نسخے کی خطاطی کرتے اور اسے حرم شریف میں بھیج دیتے تھے۔

ابراہیم غزنوی بہت نیک اور نرم دل حکمران تھے۔انہیں ہمیشہ عوام کی فکر رہتی تھی۔وہ رات میں گلی کوچوں میں چکر لگایا کرتے اور ضرورت مند کو ڈھونڈ کر اس کی مدد کیا کرتے تھے۔بعض مورخین نے انکی دینداری اور سادگی پسند کی وجہ سے انہیں "ولی اللہ" بھی کہا ہے۔

ابراہیم غزنوی کا انتقال5شوال492ھ/بمطابق25اگست1099عیسویٰ میں ہوا،آپ کو غزنی کے باغِ فیروزہ میں سپر د خاک کیا گیا۔ 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

پشتون نسل اور پٹھان قوم کی حیرت انگیز تاریخ۔

افغانستان ایک ایسا ملک ہے جسے "سلطنتوں کا قبرستان" کہا جاتا ہے۔اس وقت افغانستان اسلامی دنیا کا طاقتور ترین اسلامی ملک ہے جس نے روس اور امریکہ جیسی سپر پاورز کو شکست دی ہے۔افغانستان میں اسلام کیسے پہنچا ؟پٹھان قوم…

مزید پڑھیں
سلجوقی سلطنت کے قیام اور زوال کی مکمل داستان

سلجوقی سلطنت کو عالم اسلام کی چند عظیم سلطنتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سلجوقی سلطنت کا قیام "گیارہویں" صدی عیسوی میں ہوا۔ سلجوق در اصل نسلاََ    اُغوز ترک تھے۔اس عظیم سلطنت کا قیام"طغرل بے"اور"چغری…

مزید پڑھیں
سپین میں مسلمانوں کا 800 سالہ دور حکومت

جزیرہ نما آیبیریا   جو کہ ہسپانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مغربی رومی سلطنت کے ختم ہو جانے کے بعدیہاں پر مکمل طور "گاتھک" خاندان کی حکومت قایم ہو گی۔لیکن انکی یہ حکومت زیادہ عرصہ…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں